:بے بسوں کی التجا
"بیشک ہم تمہیں بھوک، مال، سیلاب، اناج کے چھن جانے سے آزمائیں گے تاکہ تم پرہیزگار بن سکو۔"
پاکستان کے لیے 2022 کا آغاز متوقع طور پر نہ ہوا۔ خوفناک سیلاب نے سندھ، بلوچستان، اور خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن پر آہ و بقا کا سا ماحول طاری رکھا۔ جون تا اکتوبر 2022، سیلاب نے وہاں کے مکینوں میں تباہی پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سات سو انتالیس جانیں اس تباہی سے نہ بچ سکیں، اور 3.3 ٹریلین روپے (15.2 بیلین ڈالر) کا معاشی نقصان ہوا۔
مونسون کی ان موسلادھار بارشوں نے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سب سے شدید سیلاب کو جنم دیا جس کے نتیجے میں پورے کے پورے دیہات بہہ گۓ، وبائ امراض پھوٹ پڑے، اور غذائی قلت کے باعث تقریباً 10 میلین بچوں کو فوری طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ لاکھوں گھر، صحت عامہ کی بہت سی سہولیات، پانی کے نظام اور سکول تباہ ہو چکے ہیں۔ تباہ کن سیلاب کے بعد پانی کھڑا ہونے کے باعث وبائ امراض پھوٹ پڑنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ پینے کا صاف پانی، حفظان صحت تک رسائ، اور پناہگاہوں کی فراہمی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس سال کا سیلاب 2010 کے سیلاب سے زیادہ تباہ کن تھا، جس میں 1700 لوگ ہلاک ہوۓ تھے، اور ایک بڑے بین الاقوامی ردعمل کو مربوط کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ اب تک کی بدترین آفت تھی۔ مقامی حکام نے تنبیہ کی ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کو کم ہونے میں لگ بھگ چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ سرکاری رپورٹوں کے مطابق، وسط جون سے کم از کم 1.2 میلین مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے متاثرہ گھرانوں کی روزی روٹی، دودھ اور گوشت سمیت جانوروں کی مصنوعات کی فراہمی پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تباہ کن سیلاب کی وجوہات:
قدرتی وسائل کا ناقص استعمال اس تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کا کردار اس عنصر میں ہم کسی طرح جھٹلا نہیں سکتے۔ اگرچیکہ گرمی کے موسم میں بارش کی پیشگوئی تھی، لیکن، بدقسمتی سے ان بارشوں نے ملک بھر میں دو ماہ راج کیا اور تہلکہ مچا دیا۔ اپریل میں پاکستان کو اب تک کی ریکارڈ توڑتی گرمی جھیلنا پڑی جو کہ تقریباً 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی تھی۔ ملک نے 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی کی شدت کا سامنا کیا۔ اس قدر درجہِ حرارت کا مطلب یہ ہے کہ ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں میں موجود گلیشیر جو کہ دریا سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں، زیادہ جلدی پگھلنے لگتے ہیں۔ اس بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت نے سیلابی پانی کو پکی ہوئی سخت زمین میں جذب کرنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان میں 2022 کی مونسون بارشیں اور تباہ کن سیلاب 30سالہ اوسط سے تقریباً 30 گناہ زیادہ ہیں۔ ذرائع کے مطابق پانی کم ہونے میں مہینے لگ سکتے ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں کے لیے کی گئ کاوشیں:
گوگل نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے 0.5 ملین ڈالر عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ میٹا نے امدادی سرگرمیوں کے لیے 125 ملین روپے کا عطیہ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی نے ایمرجنسی ٹیمیں تعینات کیں۔
بڑی امدادی کارروائیوں میں سے ایک ہلال احمر کی ہے جو جولائ میں متحرک ہوا اور اب تک پانچ لاکھ اسی ہزار لوگوں تک زندگی بچانے والی ہنگامی امداد پہنچا چکا ہے۔ ملکی بقا کے لئے پاکستان ہلال احمر قومی اور مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ موومنٹ بے بسوں کے لیے امید کی کرن ہےجو ضرورت مندوں کو بنیادی ضروریات مثلاً کھانا پانی اور رہائش جیسی ضروریات فراہم کرنے نیں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ اب تک 1 لاکھ انچاس ہزار لوگوں میں تقریباً اکتیس ہزار تین سو سے زائد خیمے تقسیم کر چکی ہے۔ بےگھر اور معاشی طور پر بدحال لوگوں کو عارضی رہائش فراہم کی گئی ہے اور دو لاکھ تراسی ہزار آٹھ سو کو اہم اشیاء فراہم کی گئ ہیں جن میں چھبیس ہزار پانچ سو کھاتے کے دیے، تیس ہزار تین سو مچھردانیاں، چونتیس ہزار پانچ سو سے زائد حفظان صحت کٹس، 11 واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس تقسیم کیے گئے ہیں جو روزانہ پینتیس ہزار چار سو لوگوں کو 1 لاکھ ستاسی ہزار لیٹر پینے کا صاف پانی مہیا کر رہے ہیں۔ تہتر ہزار سے زائد لوگوں کو 13 میڈیکل ہیلتھ پوائنٹس، 17 میڈیکل سائٹس، اور مسلسل ابتدائ طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ریڈ کراس کی ٹیمیں پانی سے جنم لینے والی بیماریوں مثلاً ہیضہ اور اسہال سے بچاؤ کے لیے بھی پیش پیش ہیں۔
UNICEF نے حکومت سے مذاکرات کیے اور بچوں اور خاندانوں کو پینے کے صاف پانی، زندگی بچانے والی طبی سہولیات ، حفظان صحت کٹس کی فراہمی کو یقینی بنایا۔
انہوں نے ان تباہکن سیلابوں سے متاثرہ بچوں کے تحفظ اور نفسیاتی بہبود کے لیے عارضی تعلیمی مراکز بھی قائم کیے۔ علاوہ ازیں، مشہور شخصیات جیسے کہ انجیلینا جولی جو طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی رکن ہیں، نے بھی سیلاب زدگان کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ممکن کوشش کریں کہ سیلاب متاثرین تک پہنچا جاۓ، اور اس موسمیاتی آفت پر قابو پانے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔
ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ نے پندرہ میلین ڈالر کا عطیہ فراہم کر کے 3 لاکھ سے زائد لوگوں کا بھلا کیا۔ ایچ ایچ آر ڈی پاکستان کی ٹیمیں خاندانوں کی خوراک، ناقابل خراب ہونے والی اشیاء ، طبی امداد، گھروں کی تعمیر نو کی کٹس، اور عبوری گھروں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا Hope-4-Seed پیکیج کاشتکاروں کو 1 سال کے لیے خوراک اور آمدنی پیدا کرنے کے لیے درکار بیج، سامان، اور تربیت فراہم کر کے برقرار اور بااختیار بناتا ہے۔
آپ کس طرح خدمت خلق میں تعاون کر سکتے ہیں:
احساس کا وجود میں موجود ہونا آپ کو مدد کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ بےشمار طریقوں سے سیلاب زدگان کی امداد کی جا سکتی ہے۔ کوئ بھی عطیہ ، چاہے چھوٹا ہو یا پڑا، بہت مدد کرتا ہے۔ عطیات میں کھانی کی مصنوعات، جیسے شیر خور بچوں کے لیے پاؤڈر دودھ، ڈبے میں بندھ کھانے، صاف پانی ، حفظان صحت کی مصنوعات جیسے کہ سینیٹری نیپکن، ڈائپرز، صابن، کپرے، خیمے، اور پناہگاہوں کے لیے اشیاء شامل ہیں۔
بےشمار ذرائع سے آپ عطیہ کر سکتے ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: